اشاعتیں

اتفاق و اتحاد

تصویر
 عباسیہ حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرہ ہونے لگا. جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے. پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ  ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیے؟ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ھے ۔۔۔ ابھی یہ  مناظرے چل  رہے تھے  کہ  ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی  اور سب کچھ تہس نہس کر گئی ۔۔۔ مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے ۔۔ سوئی کی نوک پر فرشتےگننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار  بن گئے ، جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا۔۔۔ کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے ۔۔ آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کیئے سینکڑوں برس ہو گئے مگر قسم لے لیجئے

علماء کی تجارت

تصویر
                                آج ایک بندے کی پوسٹ پڑھی جسمیں اسنے قادیانی  کمپنیوں سے بائکاٹ کے بارے میں کہا تھا لیکن اس پوسٹ  میں درج کی گئ کمپنیوں کی جب تعداد دیکھی تو  میری حیرت کی انتہا نہ رہی تقریبن 36 کے قریب کمپنیاں  بن رہی تھیں میں نے حیرت سے سوال کیا کہ صرف ہمارے ملک میں انکی اتنی کمپنیاں ہیں تو ہمارے والے کیا بنا رہے ہیں؟اب آتے ہیں دینی طبقے کی کاروباری سرگرمیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو منظر نامے میں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔ آج حالت یہ ہے کہ اگر  کوئی عالم دین کاروبار کا سوچتا ہے تو کوئی اسے دین کے منافی قرار دیتا ہے اگر یہی کرنا تھا تو مدارس میں کیوں رہے ؟ اور ہمت کرکے کوئی پہلا قدم اٹھا بھی لے تو ہم عصر یہ طعنہ دے کر خون جلاتے ہیں تدریس کے لئے قبولیت شرط ہے قابلیت نہیں ، اللہ نے قبول نہیں کیا انتہائی افسوس اگر تاریخ سلام پہ نگاہ دوڑائی جائے تو کاروبار کی شروعات ہی اسلام کی شروعات نظر آتی ہے ۔پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ، حضرت ابوبکر نے کپڑا ، حضرت عمر نے اونٹ ، حضرت عثمان نے چمڑا ، حضرت علی نے خَود اور زِرْہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہا

آسمانی آفت، اور زمینی آفت۔

تصویر
  خلیفہ ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا‘ عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے زیادہ شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی۔ ہارون الرشید کے دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا۔ اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔ ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں‘اس نے غلے کے گودام کھول دئیے‘ ٹیکس معاف کر دئیے‘ پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانے قائم کر دئیے اور تمام امراء اور تاجروں کو متاثرین کی مدد کیلئے موبلائز کر دیا لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا‘ اسے نیند نہیں آ رہی تھی‘ ٹینشن کے اس عالم میں اس نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا‘ یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کا استاد بھی تھا۔ اس نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی۔ ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا ”استادمحترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی‘ کوئی ایسی داستان سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آ جائے“ یحییٰ بن خالد مسکرایا اور عرض کیا ”بادشاہ سلامت میں نے اللہ کے کسی نبی کی حیات طیبہ میں ایک داستان پ

حرس المخیم

تصویر
 ‏حارس المخیم امجد فاید شیر کا بچہ تھا، ہزاروں شیروں کے برابر۔ فلسطین کے مہاجر کیمپ جنین میں جنم لینے والے امجد کا نام "حارس المخیم" یعنی کیمپوں کا رکھوالا یا چوکیدار پڑ گیا تھا۔ یہ نو عمری میں ہی شکار کا شوقین تھا۔ شکار پرندوں کا نہیں، صہیونی درندوں کا۔ گھر میں نہیں سوتا تھا، بلکہ  ‏کیمپوں کے گرد چکر لگاتا رہا اور حملہ آور درندوں پر سنگ باری کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کرتا۔ قابض درندے امجد کی تاک میں تھے۔ بالآخر کل شام وہ اسے گھیرنے میں کامیاب ہوئے اور اس معصوم جان کو 11 گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ رحمك الله و تقبلك يا بطل الأمة.

لوگوں کی باتوں کو پسِ پشت ڈال دیجئے

تصویر
                لوگوں کی باتوں کو پسِ پشت ڈال دیجئے  ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازے نکالنےلگا. گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا. جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں. یہ سوچ کر اس نے اپنے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا. سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھےگھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا. اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی. کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا. جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے. یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا. کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا

عیش و عشرت

تصویر
 انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اول (1199-1157) جس نے تیسری صلیبی جنگ لڑی، وہ ایک بڑی فوج لے کر شاہ مصر صلاح الدین ایوبی (1193-1137) کے مقابلہ کے لئے نکلا۔ رچرڈ کی فوج کے افسانے اس طرح مشہور ہو رہے تھے کہ مسلمانوں کی فوج میں پست ہمتی کے آثار پیدا ہوگئے۔ صلاح الدین ایوبی نے اپنے دو خاص جاسوسوں کو طلب کیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور رچرڈ کی فوج کے حالات معلوم کریں۔ جاسوس بھیس بدل کر روانہ ہوئے اور عیسائی فوج میں داخل ہوگئے۔ ایک رات اور ایک دن انہوں نے ادھر ادھر پھر کر عیسائی فوج کا جائزہ لیا۔ واپس آکر انھوں نے صلاح الدین ایوبی کو خبر دی کہ ہم نے عیسائی لشکر کے خیموں میں دو باتیں خاص طور پر دیکھیں۔ ایک یہ کہ ان کے فوجی شراب و کباب میں مست ہیں اور رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ فوج کے ساتھ جو پادری آئے ہیں وہ مذہبی بحثوں میں مشغول ہیں۔ ہم نے ان کو اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے پایا کہ حضرت عیسی کا پیشاب پاخانہ پاک تھا یا ناپاک۔ صلاح الدین ایوبی نے یہ روداد سننے کے بعد اپنے فوجی افسروں کو بلایا اور ان کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم عیسائی فوج رسوا ہو کر رہے گی۔ جس قوم کا یہ حال

نتیجہ فکر

تصویر
 🖋نصیر ناصر اگر آپ کو اپنے مذہبی،سیاسی نظریہ پر یقین نہیں۔توآپ بے سمت مسافر ہیں۔جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے مذہبی،سیاسی نظریہ کے حوالہ سے مخالفانہ فکرکو سننے، اس پر غور کرنےاور دلیل وشائستگی سے اس کا رد کرنےکی بجائے گالم گلوچ اور طعنہ وتضحیک کو اختیار کرلیتے ہیں۔تو آپ کنفرم جاہل اوراندھی تقلیدیاشخصیت پرستی کاشکار ہیں۔ اگرآپ اپنے مذہبی یا سیاسی نظریہ کی سچائی کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔تو آپ کو اس پر دلیل کے ہتھیار سے لیس ہوناپڑے گا۔مگر دلیل بھی وہ جو آپ کے نظریہ کی برتری حقائق کے ایسے معیار سے ثابت کرے۔ جس معیار کو آپ دوسروں کے معاملہ میں بھی تسلیم کرسکیں۔ اکثر دیکھاگیا ہے۔کہ بہت سارے بظاہر سنجیدہ فکر حضرات بھی جس معیار پر دوسروں کو پرکھتے ہیں۔ خود کو اس معیار سے پرکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ جس معاملہ کو دوسرے کیلیےقابل گرفت گردانتے ہیں اپنے طبقہ کے کردار میں جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  خدارا فکری انحطاط اور جذباتیت کی بجائے سنجیدگی ، متانت اور شائستگی کو فروغ دیجئے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی بھی فورم پر ایسا خیال پیش ہی نہ کیجئے۔جس پر آپ دلیل سے عاری ہوں۔ یا مخالفانہ دلائل ک