علماء کی تجارت


                               



آج ایک بندے کی پوسٹ پڑھی جسمیں اسنے قادیانی 

کمپنیوں سے بائکاٹ کے بارے میں کہا تھا لیکن اس پوسٹ 

میں درج کی گئ کمپنیوں کی جب تعداد دیکھی تو 

میری حیرت کی انتہا نہ رہی تقریبن 36 کے قریب کمپنیاں 

بن رہی تھیں میں نے حیرت سے سوال کیا کہ صرف ہمارے ملک میں انکی اتنی کمپنیاں ہیں تو ہمارے والے کیا بنا رہے ہیں؟اب آتے ہیں دینی طبقے کی کاروباری سرگرمیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو منظر نامے میں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔

آج حالت یہ ہے کہ اگر  کوئی عالم دین کاروبار کا سوچتا ہے تو کوئی اسے دین کے منافی قرار دیتا ہے اگر یہی کرنا تھا تو مدارس میں کیوں رہے ؟ اور ہمت کرکے کوئی پہلا قدم اٹھا بھی لے تو ہم عصر یہ طعنہ دے کر خون جلاتے ہیں تدریس کے لئے قبولیت شرط ہے قابلیت نہیں ، اللہ نے قبول نہیں کیا انتہائی افسوس اگر تاریخ سلام پہ نگاہ دوڑائی جائے تو کاروبار کی شروعات ہی اسلام کی شروعات نظر آتی ہے ۔پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ، حضرت ابوبکر نے کپڑا ، حضرت عمر نے اونٹ ، حضرت عثمان نے چمڑا ، حضرت علی نے خَود اور زِرْہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہارا دیا ۔۔حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کھجوروں سے ، حضرت ابو عبیدہ نے پتھروں سے ، حضرت سعد نے لکڑی کے برادے سے ،حضرت امیر معاویہ نے اون سے ، حضرت سلمان فارسی نے کھجور کی چھال سے ، حضرت مقداد نے مشکیزوں سے اور حضرت بلال نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا ۔۔سعید بن مُسَیِّبِ اگرچہ آپ بڑے عابد و زاہد اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ اس قدر ترک دنیا نا پسند کرتے تھے جس سے انسان اپنی عزت قائم نہ رکھ سکے اور دوسروں کے ساتھ سلوک نہ کر سکے اس لیے کسبِ معاش کے تجارت کا پاک شغل اختیار کیا تھا۔ روغن زیتون وغیرہ کی تجارت کرتے تھے۔امام غزالی کتابت کرتے ، اسحاق بن راہویہ برتن بنا تے ، امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کاشتکار اور تاجر تھے اور منقول ہے کہ والد کی وِراثَت میں آپ کو بہت سا مال ملا جسے مُضارَبت کے طور پر دیا کرتے تھے۔(مصابیح الجامع للدمامینی، 5/49، فتح الباری، 1/454) امام مسلم خوشبو بیچتے ، امام نسائی بکریوں کے بچے فروخت کرتے ، ابن ماجہ رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے ۔۔امام حضرت سالم بن عبداللہ بازار میں لین دین کیا کرتے تھے. حضرت ابو صالح سمان روغن زیتون کا کام کیا کرتے تھے ، حضرت امام یونس ، حضرت ابن عبید داؤد ، حضرت ابن ابی ہند، حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت وثیمہ ریشمی پارچہ کاکام کرتے رہے۔حافظ الحدیث غندر بصری نے چادروں کا ، امام القراء حمزہ نے زیتون، پنیر اور اخروٹ کا ، امام قدوری نے مٹی کے برتنوں کا ، امام بخاری کے استاد حسن بن ربیع نے کوفی بوریوں کاکاروبار سنبھالا ۔حضرت امام احمد ابن خالد قرطبی نے جبہ فروش کی ، حضرت امام ابن جوزی نے تانبا بیچا ، حافظ الحدیث ابن رومیہ نے دوائیاں ، حضرت ابو یعقوب لغوی نے چوبی لٹھا ، حضرت محمد ابن سلیمان نے گھوڑے اور مشہور ومعروف بزرگ سری سقطی نے ٹین ڈبے بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا ۔

محترم علماء کرام ! مدرسہ میں پڑھانا ، مسجد میں امامت کروانا یا تصنیف و تالیف میں مشغول ہونا اچھی بات ہے لیکن ہمارے اکابرین نے انہی کاموں کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کیا ہے تاریخ اٹھا کر دیکھئے ۔دور نبوت سے لے کر دور صحابہ تک ، تابعین سے آئمہ کرام اور مجتہدین تک سبھی لوگ کاروبار سے وابستہ رہے ۔لیکن افسوس ہم لوگ اس سے غافل ہوئے تو اپنی عزت وقار اور ناموس تک کو فراموش کربیٹھے۔⏰

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لوگوں کی باتوں کو پسِ پشت ڈال دیجئے

عیش و عشرت

نتیجہ فکر